mladic and bosnia war ملاڈک کی گرفتاری ظالموں کے لءے ایک سبق۔ عابد انور



  • راتکوملاڈچ کی گرفتاری ظالموں کے لئے اےک درس عبرس
  • تےشہ فکر عابد انور 
  • ظالم خواہ کتنا بڑا کےوں نہ ہو اےک نہ اےک دن اس کا ےوم حساب ضرور آتا ہے۔جب وہ اقتدار کے نشے مےں ہوتا ہے تو اسے حق و باطل کی کوئی تمےز نہےں ہوتی ،کچھ بھی نظر نہےں آتا ، دکھائی دےتی ہے تو صرف ےہ کہ اس کی جھوٹی کی انا کی تسکےن ہوئی ےا نہےں۔وہ جو سوچتا ہے وہی ضابطہ اور قانون بن جاتا ہے، وہ کسی کے ساتھ کوئی سلوک کرتا ہے تووہ انصاف بن جاتا ہے۔کسی کا ناحق قتل کرنا، حق سلب کرنا اس کا اختےاراتی اصول مےں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ ظلمت کدہ مےں رہتے اور ظلم و ستم کا روےہ روا رکھتے ہوئے خود کو ڈکٹےٹر اور مطلق العنان حکمراں کہلانے مےںوہ فخر محسوس کرتا ہے۔ تارےخ شاہد ہے کہ کوئی بھی ظالم حکمراںبہت دنوں تک اپنی ظلم کی رسی کو دراز نہےں کرپاےا اس کا انجام اسی راستے پر ہوا جس پر وہ چلا کرتا تھا۔ ےہ الگ بات ہے بہت سے ظالم و جابربڑے بڑے جمہوری ملک مےں آزاد گھوم رہے ہےں۔ ان پر انصاف کا شکنجہ ابھی تک نہےں کسا گےا ہے لےکن اس کی ذلت ہر موقع پر ہوتی ہے خواہ وہ اسے محسوس کرے ےا نہ کرے ےہ گناہ اس کا پےچھا کبھی نہےں چھوڑتا۔سرب کمانڈر راتکو ملاڈچ کی گرفتاری اس نظرےہ کو تقوےت بخشتی ہے اور ظالموں کے لئے پےغام دےتی ہے کہ وہ خواہ لاکھ جتن کرلے لےکن اےک نہ اےک دن وہ انصاف کے پھندے مےں اس کی گردن ضرور پھنسے گی۔ملاڈچ کی گرفتاری سے جہاں سربےا کااےک ناخوشوگوار باب بند ہوا ہے وہےں ےہ ہمےشہ ےاد دلاتی رہے گی کہ اقوام متحدہ، امرےکہ اور ےوروپی ممالک بلقان کے مسلمانوں کی حفاظت کرنے مےں ناکام رہے تھے اور لاپروائی برتی تھی۔ ےوگوسلاوےہ کے خلاف ےوروپی اور مغربی ممالک نے اس وقت کارروائی شروع کی تھی جب مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا تھا۔ لاکھوں مسلمان مارے جاچکے تھے۔ےہ اےسا قتل عام تھا جس نے نازی کو بھی شرمسار کردےا تھا۔سرب فوج نے چن چن کر مسلم نوجوانوں کو قتل کےا تھا اور ان کی عورتوں کی عزت تار تار کی گئی تھی۔ اسے ےوروپی تارےخ مےں ہولوکاسٹ سے تعبےر کےا گےا ہے۔اس قتل عام کو روکنے مےںاقوام متحدہ نے مسلمانوں کے تئےں برتے جانے والے روےے کی طرح بے بسی اور بے کسی کا منظر پےش کےا تھا۔مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور اقوام عالم خواب خرگوش مےں محو تھی۔اےسا دلدوز واقعات تارےخ مےں بہت کم پےش آئے ہےں کہ اےک طرف مسلم علاقے کو آزادی دی گئی اور دوسری طرف اس کے قتل عام انتظامات بھی کئے گئے ۔ آزادی کا اعلان کرتے ہی مسلم علاقوں پر دھاوا بول دےا گےا ۔بلقان جنوب مشرقی یورپ کے خطے کا تاریخی و جغرافیائی نام ہے۔ اس علاقے کا رقبہ ۵ لاکھ۰۵ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی تقریبا ۵۵ ملین ہے۔ اس خطے کو یہ نام کوہ بلقان کے پہاڑی سلسلے پر دیا گیا جو بلغاریہ کے وسط سے مشرقی سربیا تک جاتا ہے۔اسے اکثر جزیرہ نما بلقان بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے تین جانب سمندر ہے جن میں مشرق میں بحیرہ اسود اور جنوب اور مغرب میں بحیرہ روم کی شاخیں (بحیرہ ایڈریاٹک، بحیرہ آیونین، بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ) ہیں۔جنوب مشرقی یورپ بحیرہ ہائے ایجین، ایڈریاٹک اور اسود کے ساحلوں سے شروع ہوکر وسطی یورپ تک پھیلا ہوا علاقہ ہے جس میں یونان، بلغاریہ، کروشیا، سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا و ہرزیگووینا، البانیہ اور مقدونیہ کے ممالک شامل ہیں۔
  • بلقان پر سلطنت عثمانیہ کی تقرےباً چار سو سال تک حکومت رہی ۔ سلطنت عثمانےہ نے بیزنطینی شہنشاہیت کو شکست دے کر خطہ بلقان پر اس وقت فتح حاصل کی تھی جب ےہ خطہ زبردست انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار تھا۔ اس علاقے کو استحکام کی سخت ضرورت تھی جس کو سلطنت عثمانےہ نے پورا کےا۔ اس وقت ےہ علاقہ بہت سے چھوٹے چھوٹے بادشاہ، نوابین اور مطلق العنان حکمراں اپنے باہمی مناقشات کے فیصلوں کے لئے بیرونی مدد مانگنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ بلقان میں مکمل نراج اور لاقانونیت کے زمانہ میں صرف عثمانیوں ہی کے پاس ایک واضح منصوبہ اور حکمت عملی، فوجی طاقت اور مرکزیت تھی جو ا ±ن کی اقدامی کامیابیوں کی ضمانت تھی۔ تیرھویں اور چودھویں صدی کے بلقان میں سیاسی انتشار، آزادی پسندی اور مناقشات کی گرم بازاری اس لئے تھی کہ ایک یونان کو چھوڑ کر بلقان کے تمام علاقے کی مرکزیت سے نکل گئے تھے. بلغاریہ، مقدونیہ، البانیہ کو اپنے چھوٹے وجود اور علاقائی، نسلی، لسانی، ثقافتی امتیاز اور پہچان پر اصرارتھا ۔ اس کے نتیجہ میں علاقے کے چھوٹے خطوں کو بھی اسی نوعیت کی پہچانوں اور امتیازات کا احساس پیدا ہوا اور وہ بھی اسی رو مےں بہہ گئے۔ وہ مشرقی اور مغربی عیسائیوں کے اپنے باہمی اختلافات اور طالع آزما نوا بین اور امرا کے جھگڑوں کا شاخسانہ تھا.۔مگر جب عثمانی سلطنت کے آگے ۲۵۴۱ میں وہ سلطنت معدوم ہوئی تو نہ صرف بلقان بلکہ پورے مشرقی یورپ میں ٹھہراو اور استحکام کی ضمانت بھی ایک ابھرتی ہوئی سلطنت عثمانیہ نے دی تھی ۔ جب دنےا مےں کمےونزم کمزور پڑنے لگی تو ےوگوسلاوےہ بھی اس سے اچھوتا نہےں رہا۔ خ ©صوصاً سووےت ےونےن کے خاتمے کے بعد دنےا مےں پھےلی ہوئی کمےونسٹ حکومت پر لازمی اثر پڑا۔ گوسلاوےہ جو چھ علاقائی رےاستوں پر مشتمل تھا آزادی کی مانگ اٹھنے لگی۔ ۰۹۹۱ میں یہ ملک متعدد آزاد ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ان آٹھ وفاقی اکائیوں میں سلووانیا، کروشیا، بوسنیا اور ہرزگووینیا، مقدونیہ، مونٹی نیگرو، سربیا اور سربیا میں شامل دو خودمختار صوبے شامل تھے۔ ۰۷۹۱ کے بعدےوگوسلاوےہ کے لےڈروں نے اپنی کمےوں اور ناکامےوں کو پوشےدہ رکھنے کے لئے عوام کی توجہ دوسرے مسائل کی طرف مبذول کی اور لسانیت اور علاقےت کے وبا کو ہوا دی جانی لگی۔ معےشت تباہ ہونے کی وجہ سے بےروزگاری آسمان کو چھونے لگی ۔ اسی دوران۹۸۹۱ میں ملکی کانفرنس کے دوران ےوگوسلاوےہ کے رہنما کسی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے جس کے نتےجے مےں کروشےا اور سلوانےا نے آزادی کا اعلان کردےا۔ خانہ جنگی کے دوران ۲۹۹۱ مےں بوسےنےا کی آزادی کا اعلان کردےا گےا لےکن اسی کے ساتھ ےوگوسلاوےہ کے صدر مےلووچ سلوبودان کے اشارے پر کثےر مسلم علاقے پر بمباری بھی شروع کردی گئی۔ سربرےنکا مےں مےں اےک دن مےں ۸ ہزار مسلمانوں کو قتل کردےا گےا تھا ےہ قاتل کوئی اور نہےں راتکو ملاڈچ تھا جسے ۶۲ مئی کو سربےا مےں اےک فارم ہاﺅس کے اندھےرے کمرے سے گرفتار کےا گےا ہے۔ 
  • راتکو ملاڈچ سابق صدر ےوگوسلاوےہ مےلوسووچ سلوبودان کے بعد سب سے بڑا مطلوب جنگی مجرم ہے جو اب تک قانون کی گرفت سے باہر تھا۔ اس قتل کو عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے فیصلے میں ۵۹۹۱ میں سربرےنکا میں آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام کو’جینو سائڈ‘ یعنی نسل کشی قرار دیا تھا۔ تاہم عالمی عدالتِ انصاف کی سربراہ جج روزلین ہگنز کا کہنا تھا ’عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سربرےنکا میں نسل کشی کے لیے سربیا کو براہِ راست موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘۔یہ کسی بھی ریاست کے خلاف قتل عام کے الزامات کے تحت قائم مقدمے کا پہلا فیصلہ ہے۔ اگر بوسنیا کو اس مقدمے میں کامیابی حاصل ہو جاتی تو یہ پہلا موقع ہوتا کہ کسی شخص یا گروہ کے بجائے ریاست کو قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا اور بوسنیا سربیا سے اربوں ڈالر بطور زر تلافی طلب کر سکتا تھا۔ لیکن عالمی عدالت نے ےوروپ کے اس ملک کو اےک بڑے الزام سے بری کردےا۔حالانکہ سرب رےاست مکمل طور پر اس قتل عام مےں ملوث تھی۔ رےاست کہتے کس کو ہےںرےاست کے انتظام و انصرام چلانے والوں کو ہی حکمراںکہا جاتا ہے اور حکمراں طبقہ جو کچھ کرتا ہے وہ رےاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سربرےنکا قتل عام مےں، فوج، حکومت، انتظامےہ، سےاسی لےڈران اور انتہا پسند سرب عوام ملوث تھے ۔ اس لحاظ سے سرب کو اس کا ذمہ دار ٹھہراےا جانا چاہئے تھا لےکن اےسا نہےں ہوا ۔ اس جرم مےں اب تک کسی کو اےسی سزا نہےں ملی ہے جس سے بوسنےا کے ہزاروں مقتولےن کے وارثوں کو انصاف کا احساس ہوسکے۔مےلوچ سلوبودان کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی لیکن اس کی جےل مےں ہی موت ہوگئیں ۔کراڈچچ کے حکم پر جنرل ملاڈچ اوراس کی فوج نے یوگوسلاویہ سے آزادی کا اعلان کرنے والی مسلم ریاست بوسنیا ہرزے گووینا کے دارالحکومت سراجےوو کا ۳۴ مہینوں تک محاصرہ کررکھا تھا جسے جدید جنگی تاریخ کا طویل ترین محاصرہ قرار دیا جاتا ہے۔
  • مےڈےا رپورٹ کے مطابق سابق جنرل راتکو ملاڈچ سابق جمہوریہ Srpska کی فوج کا کمانڈر انچیف تھا۔ وہ ۲۹۹۱سے ۵۹۹۱ تک جاری رہنے والی بوسنیائی جنگ کے دوران وقوع پذیر ہونے والے جنگی جرائم میں بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) کو مطلوب تھا۔ ۸۰۰۲میں کراڈچچ کی گرفتاری کے بعد ملاڈچ اس جنگ کے حوالے سے انتہائی اہم مطلوب ملزم تھا۔ بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) کے چیف پراسیکیوٹر Serge Brammertz کے مطابق اس گرفتاری کی خبر سے سب سے پہلے وہ خاندان ذہن میں آتے ہیں، جو ملاڈچ کے جرائم سے متاثر ہوئے تھے۔ اسی طرح مدرز آف سربرینتسا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جنرل ملاڈچ کی گرفتاری سے ان کو مسرت ملی ہے۔کروشیا کے وزیر اعظم Jadranka Kosor نے ملاڈچ کی گرفتاری کو انصاف، استحکام اور حتمی امن کے تناظر میں ایک اچھی خبر سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق اب جلد ہی Goran Hadzic کی گرفتاری کی اطلاع سامنے آئے گی۔ مفرور اور روپوش سرب لیڈرGoran Hadzic کروشیا کی جنگ میں سرزد ہونے والے انسانیت کے خلاف جرائم میں بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) کو مطلوب ہے۔ کروشیا کے صدر Ivo Josipovic نے بھی ملاڈچ کی گرفتاری کو پورے خطے میں خاص طور پر سربیا اور بوسنیا کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
  • سابق یوگوسلاویہ کے منقسم ہونے کے بعد ۲۹۹۱ سے ۵۹۹۱ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس قتل عام نے پوری دنےا کو شرمسار کردےا تھا ملاڈچ کی گرفتاری سے ےقےنا انصاف کی آس مےں فرش راہ بوسنےا ہرزے گووےنےا کے لاکھوں افراد کو سکون حاصل ہوگا ۔مختلف پابندےوں کے شکار ملک سربیا کے صدر بورس ٹاڈچ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں گزشتہ ۶۱سال سے مفرور بوسنیےائی سرب فوج کے اس سابق کمانڈر کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سرب جنگ کے دوران جنگی جرائم کے انتہائی مطلوب ملزم راتکو ملاڈچ کو گرفتار کر لیا ہے۔ ۸۰۰۲میں کراڈچچ کی گرفتاری کے بعد ملاڈچ اس جنگ کے حوالے سے انتہائی مطلوب ملزم تھا۔کاراڈچچ پر نسل کشی کے دو الزامات کے علاوہ سربنتسا کے سات ہزار سے زائد مردوں اور لڑکوں کے قتل اور تشدد کے دیگر نو الزامات عائد ہیں۔ استغاثہ کے مطابق کاراڈچچ نے سربیا میں مسلمانوں اور کروٹ نسل کے باشندوں کو دانستہ طور پر قتل کیا کیونکہ وہ سربیا میں اپنی ہی نسل کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔۳۱برس کی روپوشی کے بعد کاراڈچچ کو۸۰۰۲ میں بلغراد سے گرفتار کیا گیا تھا یہ دونوں ملزم دی ہیگ میں نسل ک ±شی اور جنگی جرائم کی ایک خصوصی عدالت کو مطلوب تھے۔سابق بوسنیائی سرب رہنما راڈووان کاراڈچچ نے کہا تھا کہ بوسنیا میں مقامی مسلمانوں سے کی گئی جنگ مقدس تھی اور یہ انصاف پر مبنی تھی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ان پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے عائد گیارہ الزامات میں وہ ’معصوم‘ ہیںاور وہ اس عدالت میں اپنا نہیں بلکہ اپنی قوم کا دفاع کرنے آئیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ ثابت کریں گے کہ۲۹۹۱تا۵۹۹۱ تک جاری رہنے والی یہ جنگ منصفانہ بنیادوں پر لڑی گئی تھی۔
  • بوسنےا مےں انصاف کی تکمےل اس وقت ہوگی جب راتکو ملاڈچ سمےت تمام ان لوگوں کو ڈھونڈ دھوڈنڈکر انصاف کے کٹہرے مےں کھڑا کےا جائے جنہوں نے اس قتل عام مےں کسی بھی طرح کا اپناکردار ادا کےا تھا۔ اسی کے ساتھ عراق اور افغان جنگ کے مجرم بش اور ٹونی بلےئر پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلاےا جانا چاہئے کےوں کہ اےک مفروضہ دستاوےزات اور شواہد کی بنےادپر عراق کو تہ و بالا کےا۔ جس مےں لاکھوں عراقےوں کا قتل عام کےا گےا۔ جب اےک درجن سے زائد شےعوں کی ہلاکت کے لئے صدام حسےن کو پھانسی پر لٹکاےا جاسکتا ہے تو لاکھوں عراقےوں کے قتل عام کے جرم مےں بش اور ٹونی بلےئر کو سےکڑوں بار پھانسی پر کےوں نہےںلٹکاےا جاسکتا۔جب تک عالمی برادری ان دونوںکو اس سفاکانہ جرم کے لئے سزائےں نہےںدےتےں انصاف کا تقاضہ پورا نہےں ہوگا اورنہ ےہ قوم انصاف پسند کہلائے گی۔ اس کے علاوہ ہندوستان مےں بھی ممبئی کے ۳۹۔۲۹۹۱ کے فسادات مےں مارے گئے تےن ہزار مسلمانوں، مےرٹھ ملےانہ اور ہاشم پورہ اور دےگر قتل عام سمےت گجرات قتل عام کے قصورواروں کا بھی انصاف کا ترازو انتظار کر رہا ہے۔ ےہ ہندوستانی حکومت کا فرض ہے کہ گجرات قتل عام کے قصوروار مودی سمےت تمام مجرموں کو سزا دے تاکہ ہندوستان مےں عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور ملک کے ماتھے پرمسلمانوں کو انصاف دےنے مےں ناکامی کالگا داغ مٹ سکے۔
  • ڈی۔۴۶، فلےٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلےو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
  • 9810372335
  • abidanwaruni@gmail.com 


Comments